Thursday, July 28, 2011

پروفیسر راجر ہوڈ کے ساتھ ایک دن آکسفورڈ میں فصیح الدین، پی ایس پی

پروفیسر راجر ہوڈ کے ساتھ ایک دن آکسفورڈ میں
فصیح الدین، پی ایس پی 
اس سے پہلا کالم میں نے آکسفورڈ یونیورسٹی جاتے ہوئے ٹرین میں لکھا۔ یہ کالم واپس آتے ہوئے آکسفورڈ ٹرین سٹیشن پر شام کو لکھ رہا ہوں۔ آکسفورڈ میں میرا یہ سارا وقت مشہور دانشور اور مصنف پروفیسر راجر ہوڈ کے ساتھ گھومتے پھرتے گزرا ۔ اس وقت پروفیسر موصوف کی عمر 75سال ہے اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے مشور کالج آل سولز سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔آل سولز کالج بہت ہی خوبصورت کالج ہے جو ان تمام ارواح (سول بمعنی روح) کے نام سے منسوب ہے جنہوں نے فرانس کے خلاف سوسالہ جنگ میں جان دی تھی۔پروفیسر موصوف نے مجھے اپنے گھر سے شروع کرکے اکسفورڈ کے درجنوں کالجوں کی عمارات، لائبریریاں اور اہم مقامات کے بارے میں بتایا۔ آکسفورڈیونیورسٹی پریس کی پرانی عمارت بھی دکھائی۔ یہ دن میری زندگی کے بہترین ایام میں سے ہے جب میں نے علم و دانش اور حکمت و تعلیم کی اس عظیم درسگاہ کی سیر کی۔میرا دل ایک طرف ارمانوں اور حسرتوں سے افسردہ تھا کہ کاش میں اور میری قوم کے اکثر لوگ اس یونیورسٹی میں تعلیم پاتے تو دوسری طرف میری مسرت کی انتہا نہ تھی کہ مجھے اس یونیورسٹی ہی کے ایک بلند پایہ پروفیسر کی معیت میں یونیورسٹی کی سیر کا موقع مل رہا ہے اور اپنے ایک ایک سوال کا نہایت علمانہ اور پر مغر جواب پا رہا ہوں۔ پروفیسر موصوف ایک چلتی پھرتی تاریخ تھے جو میرے ساتھ ساتاھ چلتے رہے۔ سب سے زیادہ حیران کن بات یہ رہی کہ اس یونیورسٹی کے اکثر کالجز دراصل عیسائی مذہبی مدرسے اور کلیسا تھے جو ان کے تاریک دور کے اختتام کے ساتھ ساتھ بعد میں جدید کالجوں میں تبدیل ہو تے گئے۔ اگرچہ عمارتیں اب بھی وہی صدیوں پرانی ہیں مگر جدید تعلیم نے ان کی شکوہ و عظمت کو دوام بخشا ہے۔ اکثر کالجوں کے نام بھی مقدس مذہبی ناموں پر باقی ہیں مثلاََ کرائسٹ کالج، جیسس کالج، سینٹ پیٹرز کالج وغیرہ۔ لگ بھگ یہی حال کیمبرج یونیورسٹی کا بھی ہے۔ آل سولز کالج کی لائبریری میں مشہور قانون دن بلیک سٹون کا مجسمہ بھی تھا ۔ اس لائبریری کی کتابیں نہایت ہی نرالے انداز میں سجائی گئی تھیں۔ بہت ہی زرخیز اور قدیم کتابوں پر مبنی ہے۔ میں نے اس کالج کے مین ہال میں مختلف شخصیات کی تصویریں دیکھیں تو پروفیسر صاحب نے بتایا کہ یہ رادھا کرشن ہیں۔میں رادھا کرشن کی تحریریں پڑھ چکا ہوں ۔ وہ ایک عظیم فلسفی اور مصنف تھے۔ اس کالج میں پروفیسر رہے اور پھر انڈیا کے صدر بھی رہے۔ ایک دوسرے ہال میں ان کی 1962ء کی دستخط شدہ تصویریں بھی فریم میں نظر آئیں۔دوسری عظیم شخصیتوں کی تصاویر بھی تھیں۔ ایک جگہ مشہور متنازعہ شخصیت لارنس آف عربیا کی تصویر بھی تھی جو اس کالج میں فیلو رہے جو ایک قریب کے کالج میں پڑھے تھے۔ میں نے خصوصی طور پر لنکن ان کالج کے سامنے تصویر بنوائی جس میں ہمارے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے قانون کی تعلیم پائی تھی۔ گیت پر چند طلباء و طالبات سے میں نے پوچھا کہ کیا وہ مسڑ جناح کو جانتے ہیں جنہوں نے یہاں پڑھا تھا تو ایک نے کہا ہاں وہ جس نے پاکستان بنایا تھا۔ یہ سن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی بلکہ چمک اٹھا۔ پروفیسر صاحب نے بتایا کہ ہمارے تین مذاہب اسلام ، عیسائیت اور یہودیت کی تاریخ اور اکثر روایات ایک جیسی ہیں مگر باوجود بے تحاشا مماثلتوں کے سب سے زیادہ ہم ہی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ بتایا کہ دیکھو میرے دادا کسی جگہ مذہبی امور کے وزیر تھے مگر میرے والد کہا کرتے تھے کہ مذہب کا کام امن ہے مگر سب سے زیادہ لڑائی مذہب کے نام پر ہو رہی ہے۔ی بہت ہی تکلیف دہ بات ہے۔ میں نے کہا کہ اس کی اصل وجہ مذہب کی ٹھیکیداری اور پارسائی کا یکطرفہ دعویٰ کرنا اور دوسروں کو بغیر کسی ثبور کے خدا کا دشمن سمجھنا ہے حالانکہ اس میں زیادہ تر ذاتیات اور نفسانی سازشوں کو عم دخل ہوتاہے۔ پروفیسر صاحب نے بتایا کہ آپ کے ملک کے مالدار لوگوں کو بھارت کے گوپال یونیورسٹی بنانے والوں سے سبق لینا چاہئے جو اپنی دولت کو بھارت میں ایک جدید یونیورسٹی بنانے میں صرف کر رہے ہیں۔ میں نے دل میں کہا کہ ہمارے مالدار لوگ اپنی دولت اپنے بچوں کے لیے جائیدادیں بنانے پر کیوں نہ صرف کریں جن سے وہ عیاشیاں کرتے پھریں کہ کالج اور یونیورسٹیاں بنائیں۔ پلازے اور کارخانے کون بنائے گا اگر مالدار لوگ یونیورسٹیاں بنانے میں لگ گئے؟ قارئین کرام، ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ صرف ان کالجوں کی عمارات قدیم مذہبی عیسائی ادارے تھے بلکہ یہاں پڑھانے والے بھی شدید مذہبی اخلاقیات کے پابند عیسائی راہب ہوا کرتے تھے یہاں تک کہ انیسویں صدی کے وسط تک ان اساتذہ کو شادی کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ علم کا شعبہ کس قدر عظیم قربانی چاہتا ہے اور ان لوگوں کی ترقی میں ہزاروں نہیں لاکھوں ایسے پاکیزہ نفوس نے صدیوں تک محنت کی ہے۔ ان کی سیاسی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا مگر ان کی علمی سلطنت پر اب بھی سورج غروب نہیں ہوتا ۔ تمام عمارت پرانے قلعوں جیسی ہیں مگر ان میں جدید تعلیم کا دور دورہ ہے۔ پاکستان کے صرف اعلیٰ اشرافیہ کے بچے شاذونادر ہی یہاں پڑھتے رہتے ہیں یا پڑھ سکتے ہیں اس لیے کہ یہ کافی مہنگا بھی ہے۔ مجھے یہ افسوس تو ہے کہ میں نے یہاں پڑھا نہیں مگر ساتھ ہی خوشی بھی ہے کہ میں نے یہاں کے اساتذہ کے ساتھ تادیر باتیں کیں اور مجھے ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا اور چائے پانی کا موقع ضرور ملا۔ کھانے کی میز پر ایک پروفیسر نے ڈاکٹر اکبر ایس احمد کے بارے میں پوچھا۔ پروفیسر صاحب مجھے آکسفورڈ یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف کریمنالو جی لے گئے جسے دیکھنے کی عرصے سے میری خواہش تھی۔ پروفیسر راجر ہوڈ یہاں بھی اعزازی پروفیسر ہیں۔ ادارے کے سربراہ پروفیسر آیان لوڈر سے کافی دیر تک گفتگو رہی اور انہوں نے پاکستان میں جرائم، جرائم کی روک تھام پالیسی، پولیس اور علم الجرائم کے بارے میں پوچھا۔ میں نے ان کو اپنے رسالے "پاکستان جرنل آف کریمنالوجی"کے شمارے بطور تحفہ دیے اور کہا کہ میں کوئی پی ایچ ڈی تو نہیں ہوں مگر یہی تھوڑا سا کام اپنے ملک میں کر رہا ہوں ۔ حیرت سے دیکھنے لگے کہ تم سرکاری ملازمت کے ساتھ اتنا کام کیسے کرتے ہو؟ میری عزت افزائی اور حوصلہ افزائی کے لیے انہوں نے جو الفاظ کہے وہ میرے لیے ایک یونیورسٹی سند کے برابر ہیں۔ایک مقام پر پروفیسر موصوف نے بتایا کہ اس جگہ یونیورسٹی کی اعزازی ڈگریاں دینے کی تقریب منعقد ہوتی ہے ۔ کہا یونیورسٹی اب اعزازی سند دینے میں بہت محتاط ہے اس لیے کہ پاکستان کے وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو اور برطانیہ کی پہلی خاتون وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کو اعزازی سند دینے کے بارے میں شدید مخالفت ہوئی تھی اس لیے کہ اکثر لوگ ان کے ذاتی کردار اور سیاسی مخالفین کو دبانے پر ان کے مخالف تھے۔لہٰذا اب یہ مسئلہ بڑی حساس نوعیت کا بن گیا ہے۔پروفیسر موصوف نے اکثر جگہوں پر یہ بتایا کہ یہ نسبتاََ نئی عمارت ہے جس کا مقصد ان کے الفاظ میں یہ ہوتاتھاکہ یہ سولہویں صدی عیسوی میں بنی ہے۔ دراصل آکسفورڈ کے سب سے پرانے کالج مرٹن کی عمارت دکھاتے ہوئے کہا کہ میری تحقیق اس کی قدامت کے بارے میں ہے مگر دو اور عمارتیں بھی اس قسم کا دعویٰ کرتی ہیں۔ آکسفورڈ کے بازاروں میں بھی گھومتے پھرتے وہ بتاتے کہ یہاں کس زمانے میں یوں تھا اور یوں ہوتا تھا۔ ایک جگہ جہاں عام داخلہ ممنوع گھا پروفیسر صاحب اپنا کارڈ دکھاتے ہوئے مجھے لے گئے کہ شہر کے ارد گرد یہ حفاظتی فصیل ہوا کرتی تھی جو اب بھی کچھ کچھ موجود ہے ۔ سنٹرل لائبریری اور عجائب گھر بھی دکھایا مگر وقت کی کمی کی وجہ سے زیادہ نہ دیکھ سکا۔ ایک پورے دن کی روداد اب میں کیالکھوں مگر ایک عمارت جس میں اب ایک خوبصورت کالج اور لائبریری ہے کسی زمانے میں جیل تھی۔ بتایا کہ میری بیٹی نے میری نواسی سے کہا کہ کیا وہ اس خوبصورت ہوٹل میں رہنا پسند کریں گی،کہا ، ہرگز نہیں، میں کسی ایسی جگہ ہرگزنہیں رہوں گی جہاں کے کمروں میں ایک سو پچاس سال تک ظلم وبربریت کی نحوست بند ہو۔ دراصل یہ اس زمانے کی جیل کی حالت پر ایک ایسا تبصرہ ہے جو آج ہماری جیلوں پر سو فیصد صادق آتا ہے۔ غالب جنت اس لیے نہیں لینا چاہتا کہ اس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں گی ۔ اس سے پہلے کالم میں میں نے مغرب کے اساتذہ کی بات کی تھی۔ پروفیسر راجر ہوڈ کو آپ انہی عظیم اساتذہ میں شمار کر سکتے ہیں جو پچھتر سال کی عمر میں بھی میرے ساتھ آکسفورڈ کے گلی کوچوں اور کالجوں میں اتنے گھومے پھرے کہ مجھے اپنی نوجوانی پر شرم محسوس ہورہی تھی۔ میں جب ان کو ان کی تھکاوٹ کے بارے میں کہتا تو فوراََ کہتے اس کی پرواہ نہ کریں، آپ کے پاس ایک ہی دن ہے، میں آخری وقت تک آپ کے ساتھ رہوں گا تاکہ آپ زیادہ سے زیادہ کالجز اور تاریخی مقامات دیکھیں۔ بتائیں بھلا ہیں ایسے اساتذہ ہمارے پاس؟ قوموں کی ترقی سیاستدانوں کے نعروں سے نہیں اس قسم کے جلیل القدر اور حسن اخلاق کے نمونے اساتذہ سے ہوتی ہے۔ انسٹیٹیوٹ آف کریمنالوجی کے سربراہ پروفیسر یٓیان لوڈر نسبتاََ نوجوان نظر آئے، واپسی پر میں نے پروفیسر راجر ہوڈ سے پوچھا کہ ان کی عمرکم لگتی ہے کی انہوں نے کوئی کتابیں بھی لکھی ہیں؟ کہا ہاں ہاں بہت کچھ لکھا ہے اور یاد رکھیں آپ اس ملک اور بالخصوص اس یونیورسٹی میں پروفیسر بن ہی نہیں سکتے جب تک آپ کی تصانیف اعلیٰ محققین سے داد نہ وصول کریں۔ یہ آپ نے کیسے سوچا کہ یہاں کا پروفیسر ہوگا اور اس کی تحقیقی تصانیف نہیں ہوں گی؟ناممکن! مجھے اپنی معلومات پر شرمندگی ہوئی اور سوچا کہ آئیں اور اپنے ملک کے پروفیسر کو دیکھیں کہ ان کے پلے ایک اعلیٰ انفرادی تحقیقی مقالہ بلکہ اخبار کے کالم تک نہیں ہیں کجا کہ تحقیقی تصانیف۔ بلکہ ایک وائس چانسلر کا پی ایچ ڈی مقام بھی نقل سے بھرا ہوا مشکوک بتایا جاتا ہے۔ہمارے اساتذہ کو سیاست بازی سے فرصت نہیں کتب بازی کیا کریں گے ۔ کاش ہمارے یہ بڑے بڑے دارالعلوم اور کالجز بھی اکسفورڈ جیسے کالجوں میں تبدیل ہو جائیں۔ رہے نام اللہ کا۔

No comments:

Post a Comment