Thursday, July 28, 2011

کیا ہم دہشت گردی سے لڑ سکتے ہیں؟ پاکستان کی استعداد و صلاحیت--فصیح الدین ، پی ایس پی، کے ساتھ ایک انٹر ویو

کیا ہم دہشت گردی سے لڑ سکتے ہیں؟ پاکستان کی استعداد و صلاحیت۔۔۔ایک انٹرویو

جب سے عالمی برادری کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف (طویل) جنگ میں شامل ہوا ہے، دس سالہ تجربے کے باوجود قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی میں بہتری نظر نہیں آرہی، خاص طور پر پولیس نہ تو شہری علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات کو روکنے اور نہ ہی تفتیش میں بہتری لا سکی ہے۔ دہشت گردوں کے حملوں میں بھی خاتمہ یا تخفیف ہوتی نظر نہیں آتی، مثلاََ بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، کار بم دھماکے، یا خودکش دھماکے۔ عالمی برادری پاکستان کے عہد کو اکثر مشکوک نظر سے دیکھتی ہے جبکہ پاکستانی اپنی استعدادکار کی کمی کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں اور یہاں تک کہ عالمی فریقوں (stakeholders) کے کردار، تعاون اور نیّت پر بھی شبہ کرتے ہیں۔ بحث مباحثہ، تباد لہء خیالات اور باہمی الزام تراشی کی وقعت عوام کے نزدیک بہت کم ہے جو اپنے علاقے میں کسی بھی دہشت گردی کے واقعے کے تشویشناک اثرات کو محسوس کرے ہیں۔ خواہ اِن واقعات کے پس پردہ وجوہات عالمی ہوں یا اندرونی۔ طلباء کے ایک گروہ نے جناب فصیح الدین صاحب کا انٹرویو لیا جو کہ ایک پولیس افسر ہیں اور پاکستان سوسائیٹی آف کریمنالوجی کے صدر بھی ہیں، یہ جاننے کے لیے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے، روز بروز بڑھتے ہوے دہشت گردوں کے حملوں کا مقابلہ کرنے اور انہیں روکنے میں کیوں ناکام ہیں ورکیوں عوامی عدم تحفظ بھی عروج پر ہے۔ ذیل میں اس انٹرویو سے کچھ اقتباس پیش کیا گیا ہے جو کہ اسے سے متعلقہ موضوعات پر تحقیق کرنے والے نوجوان طلباء نے ریکارڈ کیا ہے۔

سوال 1:۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں آپ کی ذاتی رائے کیا ہے؟
جواب:۔ اگرچہ میں اس محاورے سے اتفاق نہیں کرتا تاہم امریکہ کی پالیسیوں کی بدولت اسے بہت شہرت ملی ہے ۔ سو ہمارے پاس اسے قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ دہشت گردی کے ساتھ ایک منظم جرم(Organized Crime) کی طرح نمٹنا چاہیئے جو کہ بہت سارے تشویشناک جرائم کے ساتھ منسلک ہے۔ امریکی پالیسیوں میں لفظ ’جنگ‘ بہت مشہور ہے مثلاََ اُنکی ’منشیات کے خلاف جنگ‘ اور ’غربت کے خلاف جنگ‘ وغیرہ۔ آپ جانتے ہیں کہ پاکستانیوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے بلکہ اِس خطے میں موجود وسائل کے حصول کیلیئے امریکی جنگے ہے۔ بہت سے پاکستانی کالم نگار اور ٹی وی پروگراموں کے میزبان (Ancherpersons) خصوصاََ اردو میڈیا اور مذہبی گروہوں سے تعلق رکھنے والوں کی رائے اِس بارے میں ایک ہی ہے۔ اس لفظ کے استعمال کی وجہ سے شہری علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام بہت مشکل ہو گیا ہے۔ انہی متضاد تصورات کی بدولت افغانستان یا امریکہ کی بجائے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے خدوخال بہت ہی واضح اور قابلِ فہم نظر آتے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ متحدہ مجلس عمل (مذہبی جماعتوں کا اتحاد) کے دور (2002-2008) میں بھی خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں اسی شدّت اور انداز کے دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے تھے جو کہ ہم آجغیر مذہبی جماعتوں کے دورِحکومت (2008-2011) میں دیکھ رہے ہیں۔ عوام کے نزدیک دونوں ادوار میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوئی کامیابیاں نہیں ہویءں۔ آپ دیکھئے کہ فوجی کاروائیاں بھی اُس رفتار اور جذبے سے جاری ہیں۔ خارجہ پالیسی، جعرافیائی، نظریاتی، انٹیلی جنس، سیاسی، سماجی، اور عسکری تناظر میں اب ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا مطلب واضح کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ میں عام طور پر اپنے آپ کو آخری نکتے تک ہی محدود رکھتا ہوں، چاہے جیسی بھی مجبوریاں، ہدایات اور اختلافات کیوں نہ ہوں۔

سوال 2:۔ پاکستان پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ذمہ داری قبول کرنے کا الزام ہے۔ تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ مغربی میڈیا کا معقول تجزیہ ہے؟
جواب:۔ میں بہت واضح نظریات رکھتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم دہشت گردی کے خلاف نہیں لڑ سکتے چاہے ملک میں کسی کی بھی حکومت ہو۔ خصوصاََ پولیس تو اِس بارے میں با لکل بھی کچھ نہیں کر سکتی۔ جرائم کے خلاف جنگ کے بارے میں ہماری استعداد یا ذمہ داری کے مسئلے کی کوئی اہمیت نہیں۔ مغربی میڈیا تو شک پرست ہے یا ہمارے بارے میں بالکل ہی بے خبر ہے۔ وہ دہشت گردی جیسے تشویشناک اور منظّم جرم کے خلاف ہماری جنگ نہ لڑ سکنے کی کوئی وجہ تلاش کرنا چاہتے ہیں جس کے لئے ہمیں ہی عالمی طور پر پابندقرار دیا جاتا ہے۔ جب وہ اس کے پس پردہ حقیقی وجوہات کو نہیں دیکھ پاتے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس بارے میں اپنے عہد کی پابندی نہیں کر رہے۔ یہ اس طرح ہے جیسے پولیس میں بد عنوانی یا رشوت ستانی جیسی فرضی باتیں اور عام تصّورات۔ ۔ عام طور پر یہ بات فرض کر لی گئی ہے کہ پولیس بد ترین حد تک بد عنوانی اور رشوت ستانی میں ملوّث ہے، لہٰذہ وہ جرائم کے خلاف لڑ نہیں سکتی یا لڑنا نہیں چاہتی۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر انتہائی ایماندار، مذہبی اور روحانی لوگوں کو پولیس کے سربراہانوں کی نشستوں پر بٹھا دیں تو کیا ہم دھماکو اور ڈاکوؤ کو کنٹرول کر سکیں گے؟؟ لہٰذہ جس طرز پہ جنگ لڑنے کی ہم سے توقع کی جا رہی ہے ہم دہشت گردی کے خلاف نہیں لڑ سکتے، اگرچہ ہم سو فیصد بھی مخلص ہوں۔ ہمیں وعدوں سے پہلے ذہنوں کی ضرورت ہے۔ مغربی توقعات اور ’’امریکی ڈو مور‘‘ کیلیئے واضح اشاروں کی ضرورت ہے جو کہ عوام کے علم میں نہیں۔

سوال3:۔ اِ س کا مطلب ہے کہ آپ ہمارے پالیسی سازوں کی استعداد کی توجیہہ سے اتفاق کرے ہیں؟
جواب:۔ میں اُنکی بے گناہی/قربانی کا بکرا بننے والی توجیہہ سے اتفاق نہیں کرتا۔ فرض کریں کہ پولیس کے سربراہان اور پالیسی ساز اپنی استعداد میں کمی کی مجبوریوں کے بارے میں اپنے مشاہدے میں حق بجانب ہیں ، تو یہ بتائیں کہ پچھلے دس سالوں میں انھوں نے اپنی استعداد بڑھانے کیلیئے کیا کیا؟ یا پھر وہ اپنی فورسز کی تعلیم و تربیّت، انتخاب، صف بندی اور مقامی انٹیلی جنس اکٹھی کرنے میں کیا تبدیلیاں لائے؟ آپ 2002 کے بعد ہمارے ڈیپارٹمنٹس میں کون سی اداراتی تبدلیوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں؟ اگر وہ پولیس میں سیاست کے عمل دخل کی شکایت کرتے ہیں تو اُن سے پوچھیئے کہ کس کی طرف سے اُن کا تقرر ہوا ہے؟ اور ان اداروں میں سیاسی مداخلت کو کم کرنے کیلیئے انھوں نے کیا کردار ادا کیا ہے؟ یہ محض ایک لنگڑہ لوڑہ بہانہ ہے، ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں زیادہ سے زیادہ مالِ غنیمت ہضم کرے ، جیسا کہ انھوں نے روس اور افغانستان کی جنگ میں کیا تھا۔ لہٰذہ آپ کو اسی طرح کے دلائل دونوں طرف سے سننے کو ملیں گے۔

سوال 4:۔ پھر آپ کے خیال میں کیا کِیا جانا چاہیے تھا؟
جواب:۔ آپ کو پتہ ہے کہ امریکہ 9/11 کو روک نہ سکا اور برطانیہ 7/7 کی بمباری کو روکنے میں ناکام رہا، لیکن اس کے بعد کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا۔ اُن کے پاس ذہن ہیں۔ اِن واقعات کے بعد کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا۔ 9/11 کمیشن کی رپورٹ انکی اپنی کمزوریوں اور تحفظ فراہم کرنے میں غفلت کے بارے میں ایک مخلص اور سنجیدہ تنقید ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو مشکل سے ہی کچھ پتہ ہوگا کہ امریکہ اور برطانیہ میں کونسی پالیسیاں بنیں اور کونسے عملی اقدامات کیے گئے۔ حتٰی کہ ترکی، سپین اور انڈونیشیا نے اپنی سکیورٹی کے شعبے میں جامع اور مو ثر اصلاحات نافذ کیں۔ انھوں نے نئے ادارے قائم کیے، نئے قوانین بنائے، نئی ٹاسک فورسز تشکیل دیں، دہشت گردی سے نمٹنے کیلیئے نئی پالیسیاں تشکیل دیں اور انھیں اپنی قوم کی حمایت حاصل ہے۔ ان ممالک کے علاوہ کینیڈا اور آسٹریلیا کو دیکھیں جہاں کسی خاص نوعیت کا دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ پیش نہیں آیا، لیکن پھر بھی انھوں نے اس سے نمٹنے کیلیئے بہت کچھ کیا۔ ان کے پاس دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے شائع شدہ تدابیر موجود ہیں اور آپ ان کے قومی لائحہ عمل میں مکمل تیاری کے پروگرام دیکھ سکتے ہیں۔ اس موضوع پر سینکڑوں کتابیں اور تحقیقی مقالے آپ کو دیکھنے کو ملیں گے لیکن پاکستان میں یہ آپ کو مشکل ہی سے ملیں گے۔ اسلام آباد میں ہماری دکانیں یا ائیر پورٹ پر بکسٹالز دہشت گردی، بنیاد پرستی اور طالبان وغیرہ کے بارے میں کتابوں سے بھرے پڑے ہیں، لیکن ان میں سے اکثر صحافیوں اور ریٹائیرڈ افسران نے لکھی ہیں اور میری رائے میں قانون نافذ کرنے والے افسران کیلیئے یہ کتابیں کچھ زیادہ کام کی نہیں۔ ان میں سے اکثر سیاسی محرکات کی پیداوار ہیں یا پھر یہ پروپیگنڈے کی کتابیں ہوتی ہیں۔ بہر حال ہمارے پالیسی سازوں نے مغربی ترقیافتہ ممالک کے بہترین عملی اقدامات سے کچھ بھی نہ سیکھا اور نہ ہی اُن سے کچھ سیکھا جنہوں نے اپنے دہشت گردی کے مسائل کو موء ثر طریقے سے کم کیا یا خطرات کا تعین کرنے کے کسی بھی پروگرام پہ کام کیا۔

سوال 5:۔ تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایسے اقدامات فاٹا (FATA) میں اٹھائے جا سکتے ہیں؟ اور کیا ہم وہاں عسکری کاروائیاں روک سکتے ہیں؟
جواب: ۔ نہیں نہیں!!! برائے مہربانی آپ فاٹا کی صورتحال کا موازنہ شہری علاقوں میں دہشت گردی کے حملوں سے بالکل مت کیجیئے۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ فاٹا میں عسکری کاروائی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہاں تہذیبی اور تمدّنی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔یا اگرچہ آپ اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں یا آپ کے پاس خیبر پختونخواہ میں ایک اچھا گورنر موجود ہو تب بھی اس کیلیئے ایک نسل کے گزرنے جتنا وقت درکار ہے۔ میں فاٹا میں عسکری کاروائی پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔ ہمارے پاس اس بارے میں قابلِ تصدیق ریکارڈ یا عوامی رائے نہیں ہے۔ بہت سے میڈیا رپورٹس مجھے ’’کنٹرولڈ انفارمیشن‘‘ کے درجے کی لگتی ہیں۔ ایک دفعہ میں نے سوات اور باجوڑ میں کاروائیوں کے بارے میں اخباری رپورٹس سے ڈیٹا جمع کیا اور مجھے اُن میں بہت تضاد نظر آیا۔ تاہم اگر ہم ان ناخوشگوار واقعات کے رونما ہونے سے پہلے فاٹا میں تہذیبی اور تمدنی تبدیلی لے آتے تو آج ہم بہت سی زندگیوں کو بچا چکے ہوتے۔ ہمیں کسی سر سید احمد خان، علامہ اقبال، سید سلیمان ندوی یا لارڈ میکالے کی طرح کی شخصیت کی بطور گورنر کے ضرورت ہے جو اس زمین کی اولاد ہو اور جس کا اپنا ایک واضح مقصد اور ذمہ داری ہو۔ وہ ایک ماہر تعلیم ہو، ایک مصلح ہو جو موجودہ شورش اور دہشت گردی کو روکنے جیسی فضول بحث و مباحث میں نہ الجھے۔ وہ تاجر یا ریٹائرڈ فوجی جرنیل نہ ہو۔ ایسے ہمارے پاس بہت ہیں۔ اسے ماہرین کے ایک گروہ کی حمایت حاصل ہو جو قبائلی ذہنیت اور انسانی ذہن کی برائی کی طرف میلان سے بخوبی واقف ہو۔ اسکے لیے صبر اور حوصلے کی ضرورت ہے، کسی عارضی اقدام کی نہیں اور تقریباََ ایک عشرہ یا اس سے زیادہ لگ سکتا ہے جس میں ایسے مخلص لوگوں کا گروہ پیدا ہو جو اپنے قبائلی علاقوں میں تہذیبی اور تمدنی تبدیلی کیلیئے کام کریں۔ یہ انتہا پرستی کے خاتمے کی طرف ایک طویل مقصد ہے۔ میں اسکی تفصیلات میں جانا نہیں چاہتا لیکن آپ یہ ذہن میں رکھیں کہ چارسدہ، پشاور اور بنوں تقریباََ ایک صدی پہلے اپنی قبائلی علاقوں کی طرح ہی تھے۔ میرا مطلب ہے انتہا پسند گروہوں کی سرگرمیوں کے لحاظ سے۔ ۔ ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایڈورڈز کالج اور اسلامیہ کالج 20ویں صدی کے پہلے عشرے میں اپنے قیام کے بعد پشاور میں کتنی تبدیلیاں لائے۔ 1933ء میں جب علامہ اقبال نے سر راس مسعود اور سید سلیمان ندوی کے ساتھ افغانستان کا دورہ کیا تو انھوں نے دونوں ممالک کی سرحد (جو کہ اب ڈیورنڈ لائن ہے) پر ایک اعلیٰ درجے کی یونیورسٹی کے قیام کی تجویز پیش کی۔ اس بارے میں لوگوں کو کم ہی علم ہے۔ ہمارا میڈیا، مصنّفین اور سیاستدان FCR اور عسکری کاروائیوں کے بحث مباحثوں کی خبروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ نتائج کا حامل کام ہمیں کچھ زیادہ نہیں بھاتا۔ کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ ہمارے سابقہ گورنر جو کہ ایک تاجر/ کاروباری شخصیت تھے نے اپنے طویل دورِ حکومت میں کتنی مرتبہ فاٹا کا دورہ کیا؟ اس نے فاٹا میں کتنے ادارے قائم یا شروع کئے؟ فاٹا کے کتنے طلباع کو سرکاری وظیفے پر باہر بھیجا؟ کتنے ترقیاتی کام کئے؟ فاٹا میں بھوت سکولوں کے بارے میں کیا اقدامات کئے؟ فاٹا میں سِول مسلح دستوںْ/افواج/فورسز کی تربیت کیلیئے کیا اقدامات کئے؟ فاٹا میں سماجی جرائم اور سماجی مسائل کا کوئی ریکارڈ نہیں نہ ہی معلومات اکٹھی کی گیءں۔۔۔ کیوں؟ ۔۔۔اوّل یہ کہ آپ کے پاس کوئی پالیسی نہیں ہے اور دوم یہ کہ یہ تحقیق پر مبنی نہیں ہے۔ یہ ایک طویل بحث ہے۔ برائے مہربانی آپ یہ نہ کہیں کہ تحضظ کی صورتحال سازگار/موافق نہیں تھی۔ لوگ بحران/نازک دور میں زیادہ کام کرتے ہیں۔ اگرچہ میں عسکری کاروائیوں پر کچھ تبصرہ نہیں کرنا چاہتا تاہم سوات میں کاروائیوں نے کچ امن اور چین بحال کیا اگر ہم یہ سمجھتے ہوں کہ وہاں واقعی خطرہ تھا!!!؟ اگر سوات میں خطرے کو ہم معقول اور حقیقی سمجھیں تو عسکری کاروائیوں کی بدولت وہاں کچھ نہ کچھ امن اور چین بحال ہوا ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ معلومات، تحقیق اور احتساب کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہم سازشی نظریات میں ہی الجھ کر رہ گئے ہیں اور ایسی صورتحال میں صحیح تجزیہ بہت مشکل ہو گیا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ فاٹا دہشت گردی کے خلاف بالکل اسی طرز کی حکمت عملی کی ضرورت نہیں جو ہم ملک کے دیگر شہری/رہائشی اضلاع میں استعمال کرتے ہیں۔

سوال 6:۔ آئے روز ہم اخبارات میں قانون اور امنِ عامہ اور ملک میں دہشت گردی کے بارے میں اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں کے بارے میں پڑھتے ہیں، تو کیا یہ لاحاصل ہیں؟
جواب:۔ ہاں۔۔۔ اس بارے میں کوئی شک نہیں۔ عام طور پر آپ کو اس طرح کی ہر ملاقات کے بعد کچھ نئی پالیسیاں، ہدایات اور کچھ اقدامات کی تجاویز ملتی ہیں لیکن میں نے آج تک یہ نہیں دیکھا کہ ایسی اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں سے نیچے فیلڈ افسران کی طرف کچھ منتقل ہوا ہو کہ انہیں کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے۔ یہاں تک کہ اعلیٰ افسران کی طرف سے پرزینٹیشنز اکثر تصدیق شدہ یا قابلِ تصدیق نہیں ہوتیں، جو کہ زیادہ تر انکے ماتحتوں نے تیار کی ہوتی ہیں۔ ایک مرتبہ خیبر پختونخواہ کے ایک اعلیٰ افسر کی طرف سے وزیرِ اعلیٰ کو انتہائی ناقص اعداد و شمار غلط تخمینے کے ساتھ پیش کیے گئے لیکن کسی نے اس کا نوٹس نہی لیا۔ مجھے معلوم نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی رو سے اِن اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں کو کس قدر طاقت اور اختیارات حاصل ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق فیصلوں اور عملی کاروائیوں کے متعلق کسی مخصوص شخص یا وزارت کو کوئی خصوصی اختیار حاصل ہو۔ اور میں یہ بھی خیال نہیں کرتا عوام کو اِن اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں پر کچھ اعتماد ہوگا جس کی تصاویر ہم ہر اگلے روز اخبارات میں دیکھتے ہیں (دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد)۔ ہر مرتبہ دہشت گردی کے واقعے کے بعد ہسپتال میں پڑے ہوئے حملے کا شکار ہونے والوں کی صحت کے بارے میں دریافت کرتے ہوئے ا علیٰ سیاسی شخصیات کے فرسودہ قسم کے بیانات بہیت ہی اکتاہٹ کا باعث بنتے ہیں۔ ’’یہ ایک بزدلانہ اقدام ہے‘‘۔’’ دہشت گردوں کی ان کمینی حرکتوں سے ہم ذرّہ بھی خوفزدہ نہیں ہیں‘‘، ’’حکومت نے 24گھنٹوں کے اندر اندر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے‘‘، ’’معصوم لوگوں کو قتل کرنا اسلام نہیں ہے‘‘، ’’دہشت گردوں کی اس ملک میں کوئی جگہ نہیں‘‘، ایسی ہی بے ہودہ باتیں ہم روز سنتے ہیں۔ کسی کو نہیں معلوم دہشت گردی کے واقعے کی کتنی رپورٹس صوبائی اور وفاقی حکومت نے 34 گھنٹوں اور تین دن میں طلب کی ہیں اور یہ رپورٹس کہاں ہیں اور یہ تفتیش کہاں ہو رہی ہے اور کیس فائلیں کہاں کہاں ہیں اور کون کیس کی پیربوی کر رہا ہے۔ کسی کو دلچسپی نہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس ملک پر سے ہر ایک کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ اعلیٰ افسران اداراتی معاملات میں بالکل بھی دلچسپی نہیں لیتے۔ اُن کے اپنے خاندان کو سنبھالنے اور کاروبار کے دیگر مسائل ہیں۔ اور ہماری آزاد میڈیا اِن معاملات کو سنجیدہ اور پیشہ ورانہ طریقے سے نہیں اٹھاتی۔ 

No comments:

Post a Comment