Thursday, July 28, 2011

صحافیوں کی دانشوری--فصیح الدین ، پی ایس پی

صحافیوں کی دانشوری
صحافتی برادری جس سے ایک گونہ تعلق میں بھی رکھتا ہوں اس وقت انتہائی اہم ذمہ داریوں اور چیلنجوں سے نبرد آزما ہے۔ جدید دنیا میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون گردانا جاتا ہے اس لیے کہ صحافت ہی کے ذریعہ عوامی رائے عامہ بننے اور بگڑنے کے عمل سے گزرتی ہے ۔ بادشاہتوں کے بہت حد تک خاتمے اور جمہوری ادوار میں صنعتی دور نے میڈیا کو آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ مسلمانوں کے پاس چونکہ انڈسٹری میں زیادہ حصہ نہیں ہے اس لیے میڈیا پر بھ ان کا کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے۔ پھر کھیلوں اور مشروبات کی صنعتوں نے میڈیا میں ایک اور طرح کا انقلاب برپا کر دیا ہے۔ سیاست میں دلچسپی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی طاقتوں کی طرف سے آنے والے بیانات پر سیاسی گفتگو کی گرم بازاری ہمارے ایشیائی ذہن کی آسودگی کے لیے کافی سامان مہیا کرتی ہے۔صحافت کو ایک صنعت اور ایک تجارت کا درجہ دینے میں بہت سے صحافیوں نے دن رات محنت کرکے اپنے مستقبل کو دن دگنی رات چگنی ترقی کی راہ پر گامزن بھی کردیاہے۔لیکن یہ سب باتیں اپنے ملک اور اپنے گھر کے دالان میں ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ گھر میں تو بقول جون ایلیا روز کوئی چیز ٹوٹ جاتی ہے اور جب کوئی جون ایلیا کو نہ ٹوکے تہ گلہ کرتا ہے کہ کیا خاندان میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی روک ٹوک والا ہی نہ رہے۔ یہ بیداری کی آواز لگانے والے چوکیدار معاشرے کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتے ہیں اور یہی کام صحافی بہن بھائی کر رہے ہیں۔ تاہم قارئین کرام، اس کے برعکس پاکستان کے کچھ صحافی خواتین وحضرات ایسے بھی ہیں جو بیرون ممالک کی چکا چوند زندگی ، بڑی بڑی عمارت اور برْی آلات کی حیرت انگیز سرعت کے سامنے بہت زیادہ مرعوب ہو جاتے ہیں اور گھر کی مرغی دال برابر کی طرح بیرون ممالک کے اخبارات ورسائل اور دانشوری کے اداروں میں پاکستان جیسے مظلوم ملک کو جو جی میں آئے برا بھلا کہہ دیتے ہیں۔18جون کو امریکہ سے واپسی پر مجھے برطانیہ میں لندن، مانچسٹر،آکسفورڈ اور ھڈرزفیلڈ کے بعض تعلیمی اداروں میں جانا اور کہیں کہیں علمی شخصیات سے ملنا تھا۔ اس دوران ایک نسبتاََ نیا شمارہ "Prospect"بمعنی "تناظر" (جون 2011) ایک سٹال پر دیکھنے کو ملا۔ ایک پاکستانی دانشور صحافی خاتون مونی محسن نے ایک کالم صفحہ نمبر 16پر "میرا پاکستان"کے نام سے لکھا ہے۔ یہ بات بجا ہے کہ ہم میں سے کوئی کسی دوسرے کو حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ دینے کا مجاز نہیں اور پاکستان پر جتنا حق کسی بھی ایک شہری کا ہے اتنا ہی مونی محسن صاحبہ کا بھی ہے۔اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس ملک میں ہم میں سیھ ہر دوسرے تیسرے شخص کے ساتھ کوئی نہ کوئی زیادتی ہوئی یا ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ تعلیم کی کمی، گربت ، حکمرانوں کی بد اطواری، جاگیرداری، قانون کا عدم احترام، ٹیکس چوری، بجلی چوری، گیس چوری، ملاوٹ، امراض، وبائیں، سیلاب، پیسے کے بل بوطے پر الیکشن ، آئینی بحران،غیر ضروری ملٹری آپریشن وغیرہ جیسی قباحتوں کی موجودگی میں زیادتی کا ہونا کیا ہم لوگوں کا زندہ رہنا ہی ایک معجزہ ہے۔قباحتیں مغرب کے تاریک دور اور ان کے اندر جنہوریت کا کلچر توانا درخت بننے سے قبل ہم سے بھی زیادہ تھیں اور جن کے خلاف لڑنے میں وہاں کی عوام اور بیدار مغز تعلیم یافتہ طبقہ نے صدیوں تک جدوجہد کی ہے۔ بہرحال مونی صاحبہ نے پاکستان سے سخت گلے کیے ہیں اور عائشہ جلال، حسین حقانی، زاہد حسین، شجاع نواز، ملیحہ لودھی، اور ایسے بے شمار دانشوروں کی طرح پاکستان کی تاریخ کو بری طرح کوسا ہے کہ اس ملک میں خفیہ ہاتھ ہی حکومت چلاتے ہیں اور جب تک جرنیلوں اور مذہبی لوگوں کا سیاست میں عمل دخل رہے گا تب تک یہ ملک انتہائی بد قسمت ہے۔ مونی صاحبہ نے زیادہ زور جرنیلوں کے خلاف نہیں بلکہ آرمی کے خلاف لگایا ہے گویا چند جرنیلوں کی طالع آزمائی کے نتیجہ میں پوری آرمی کو سخت الفاظ میں یاد کیا ہے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ ڈکٹیٹرشپ اچھی ہے یا خفیہ ہاتھوں کو درپردہ حکومت چلانے سے باز نہیں آنا چاہئے مگر یہ یہ ضرور کہتا ہوں کہ بجلی چوری، ٹیکس چوری، پولیس تشدد، جاگیردارانہ ذہنیت، ملاوٹ، فراڈ، دھوکہ دہی، فنڈز میخردبرد، اقرباپروری اور رشوت ستانی جتنی سول حکومتوں میں ہوتی ہے اتنی فوجی حکومتوں میں نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ ہر شخص اپنے ارد گرد نظر ڈال کر ہی دیکھ سکتا ہے ۔ یہ الگ بات کہ ہماری عوام کو ان قباحتوں کے ہوتے ہوئے بھی فکری اور جمہوری آزادیاں پسند ہیں اور جو ایک اچھی بات ہے۔ البتہ موازنہ کو طور پر پاکستان میں سماجی برائیاں فوجی سے زیادہ سول حکومتوں میں نظر آتی ہیں۔ ایک پاکستانی صحافی نے امریکہ کے اخبار میں ایک اس طرح کا مضمون لکھا ہے کہ پاکستان کی آئی ایس آئی کا ہاتھ سب دھندوں کے پیچھے نظر آسکتا ہے اور تان اس پر ٹوٹی ہے کہ موصوف نے صحافت کی خاطر بڑی قربانیاں دی ہیں۔امریکہ میں کئی کیا درجنوں تھنک ٹینک کے ادارے قائم ہیں ۔ ان میں سے بعض بعض میں پاکستان کے انگریزی لکھنے بولنے والے صحافی خواتین وحضرات کو حالات حاضرہ پر بولنے کے لیے بلایا جاتا ہے۔ ایک جگہ سے دعوت نامہ ملا مگر میں مصروفیت کی بناء پر امریکہ سے چل پڑا تھا۔ دیکھا تو کہا گیا تھا کہ فلاں صحافی پاکستان میں مذہبی جنونیت پر خطاب فرمائیں گے اور ایک جگہ تو سابق آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کے بھائی شجاع نواز کے ادارے میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی بیٹی کا بھی خطاب تھا۔ یہ تو بجا ہے کہ ہر ایک کو اپنا اپنا خیال ظاہر کرنے اور اپنی اپنی تحقیق پیش کرنے میں آزادی ہے مگر میں جب ان صحافی دانشوروں کو بیرون ممالک اپنے ملک کے کپڑے اتارتے ہوئے دیکھتا ہوں تو حیرت میں گم ہو جاتا ہوں کہ یہ آکر کن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں؟ ان کے پاس ضیاء الحق کے لیے بھی دلائل تھے اور مشرف کے لئے بھی۔ پاکستان میں ٹیکس چوری اور بجلی چوری کا مذہبی جنونیت سے کیا تعلق؟ پاکستان میں بیروزگاری اورفنڈز میں خرد برد کا دینی مدارس سے کیا کام؟ پاکستان میں قرضوں کی معافی ، عدم وصولی ، زراعت کی ناکامی اور ڈیموں کے نہ بننے کا طالبان سے کیا سروکار؟ مذہبی جنونیت ایک مسئلہ ہے اور بہت بڑا مسئلہ ہے مگر پاکستان کے دیگر مسائل کے اصل ذمہ دار جاگیردار، جرنیل، جج، بیوروکریسی اور سیاستدان ہیں اور اس میں سیاسی مذہبی رہنماؤں کا بھی بہت بڑا عمل دخل ہے۔ ہمارے یہ دانشور مغرب میں سیاسی اسلام، عسکری اسلام، مسلح اسلام جیسی اصطلاحات زور وشور سے استعمال کرتے ہیں اور پاکستان کے قبائلی علاقوں پر مانے ہوئے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں حالانکہ نہ یہ پوری زندگی میں چند دن تک بھی مذہبی تعلیم حاصل کر چکے ہوتے ہیں، نہ قبائلی نظام میں وقت گزارا ہوتا ہے حتٰی کہ کسی قبائلی علاقے کا دورہ بھی نہیں کیا ہوتا، نہ وہاں کی ثقافت ، زبان، اور تاریخ کی پیچیدگیوں سے واقف ہوتے ہیں نہ کسی مدرسے میں چند دن گزارے ہوتے ہیں نہ دینی مدارس کی تعلیم کی تاریخ سے واقف ہوتے ہیں۔ یہ دانشور دراصل اخباری خبروں پر چلتے ہیں اور جن کی"تحقیق"کا منبع اخباری خبریں ہوتی ہیں جو کہ کسی طور بھی قابل قبول نہیں اور اصل تحقیقی ماخذ میں شمار نہیں ہوتیں۔ یہ لوگ دراصل مغرب کو غلط راہ پر ڈال رہے ہیں۔ مغرب کی دانشوری کا تقاضا یہ ہے کہ اس قسم کے دور بینی محققین سے دور رہیں ۔ ان کا علم انتہائی سطحی ہوتاہے۔ ان کے کچھ مالی فوائد ہوتے ہیں، یہ ڈرائینگ روم صحافت اور بعض اوقات ایجنسیوں کی خبروں پر چلتے ہیں۔ صحافتی خبروں کی بنیاد پر ملکی پالیسیاں نہیں بنتیں۔ کاش یہ صحافی دانشور بھی مغرب میں اثر رسوخ کے لیے اپنے ملک اور اداروں کو کوسنا بند کردیں ۔ ہماری سب عزت اس ملک کی وجہ سے ہے ۔ یہ ملک خدانخواستہ نہ رہا تو مغرب میں ان کی دانشوری کی دکان پھر نہیں چلے گی۔ کام نکالنے کے بعد سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ امریکہ تو پھر اس میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہ ذہن میں رہے۔ رہے نام اللہ کا۔ 

No comments:

Post a Comment