Thursday, July 28, 2011

Khyber Pakhtunkhwa Police or Dehshatgardi k Khilaf Jang


پروفیسر راجر ہوڈ کے ساتھ ایک دن آکسفورڈ میں فصیح الدین، پی ایس پی

پروفیسر راجر ہوڈ کے ساتھ ایک دن آکسفورڈ میں
فصیح الدین، پی ایس پی 
اس سے پہلا کالم میں نے آکسفورڈ یونیورسٹی جاتے ہوئے ٹرین میں لکھا۔ یہ کالم واپس آتے ہوئے آکسفورڈ ٹرین سٹیشن پر شام کو لکھ رہا ہوں۔ آکسفورڈ میں میرا یہ سارا وقت مشہور دانشور اور مصنف پروفیسر راجر ہوڈ کے ساتھ گھومتے پھرتے گزرا ۔ اس وقت پروفیسر موصوف کی عمر 75سال ہے اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے مشور کالج آل سولز سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔آل سولز کالج بہت ہی خوبصورت کالج ہے جو ان تمام ارواح (سول بمعنی روح) کے نام سے منسوب ہے جنہوں نے فرانس کے خلاف سوسالہ جنگ میں جان دی تھی۔پروفیسر موصوف نے مجھے اپنے گھر سے شروع کرکے اکسفورڈ کے درجنوں کالجوں کی عمارات، لائبریریاں اور اہم مقامات کے بارے میں بتایا۔ آکسفورڈیونیورسٹی پریس کی پرانی عمارت بھی دکھائی۔ یہ دن میری زندگی کے بہترین ایام میں سے ہے جب میں نے علم و دانش اور حکمت و تعلیم کی اس عظیم درسگاہ کی سیر کی۔میرا دل ایک طرف ارمانوں اور حسرتوں سے افسردہ تھا کہ کاش میں اور میری قوم کے اکثر لوگ اس یونیورسٹی میں تعلیم پاتے تو دوسری طرف میری مسرت کی انتہا نہ تھی کہ مجھے اس یونیورسٹی ہی کے ایک بلند پایہ پروفیسر کی معیت میں یونیورسٹی کی سیر کا موقع مل رہا ہے اور اپنے ایک ایک سوال کا نہایت علمانہ اور پر مغر جواب پا رہا ہوں۔ پروفیسر موصوف ایک چلتی پھرتی تاریخ تھے جو میرے ساتھ ساتاھ چلتے رہے۔ سب سے زیادہ حیران کن بات یہ رہی کہ اس یونیورسٹی کے اکثر کالجز دراصل عیسائی مذہبی مدرسے اور کلیسا تھے جو ان کے تاریک دور کے اختتام کے ساتھ ساتھ بعد میں جدید کالجوں میں تبدیل ہو تے گئے۔ اگرچہ عمارتیں اب بھی وہی صدیوں پرانی ہیں مگر جدید تعلیم نے ان کی شکوہ و عظمت کو دوام بخشا ہے۔ اکثر کالجوں کے نام بھی مقدس مذہبی ناموں پر باقی ہیں مثلاََ کرائسٹ کالج، جیسس کالج، سینٹ پیٹرز کالج وغیرہ۔ لگ بھگ یہی حال کیمبرج یونیورسٹی کا بھی ہے۔ آل سولز کالج کی لائبریری میں مشہور قانون دن بلیک سٹون کا مجسمہ بھی تھا ۔ اس لائبریری کی کتابیں نہایت ہی نرالے انداز میں سجائی گئی تھیں۔ بہت ہی زرخیز اور قدیم کتابوں پر مبنی ہے۔ میں نے اس کالج کے مین ہال میں مختلف شخصیات کی تصویریں دیکھیں تو پروفیسر صاحب نے بتایا کہ یہ رادھا کرشن ہیں۔میں رادھا کرشن کی تحریریں پڑھ چکا ہوں ۔ وہ ایک عظیم فلسفی اور مصنف تھے۔ اس کالج میں پروفیسر رہے اور پھر انڈیا کے صدر بھی رہے۔ ایک دوسرے ہال میں ان کی 1962ء کی دستخط شدہ تصویریں بھی فریم میں نظر آئیں۔دوسری عظیم شخصیتوں کی تصاویر بھی تھیں۔ ایک جگہ مشہور متنازعہ شخصیت لارنس آف عربیا کی تصویر بھی تھی جو اس کالج میں فیلو رہے جو ایک قریب کے کالج میں پڑھے تھے۔ میں نے خصوصی طور پر لنکن ان کالج کے سامنے تصویر بنوائی جس میں ہمارے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے قانون کی تعلیم پائی تھی۔ گیت پر چند طلباء و طالبات سے میں نے پوچھا کہ کیا وہ مسڑ جناح کو جانتے ہیں جنہوں نے یہاں پڑھا تھا تو ایک نے کہا ہاں وہ جس نے پاکستان بنایا تھا۔ یہ سن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی بلکہ چمک اٹھا۔ پروفیسر صاحب نے بتایا کہ ہمارے تین مذاہب اسلام ، عیسائیت اور یہودیت کی تاریخ اور اکثر روایات ایک جیسی ہیں مگر باوجود بے تحاشا مماثلتوں کے سب سے زیادہ ہم ہی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ بتایا کہ دیکھو میرے دادا کسی جگہ مذہبی امور کے وزیر تھے مگر میرے والد کہا کرتے تھے کہ مذہب کا کام امن ہے مگر سب سے زیادہ لڑائی مذہب کے نام پر ہو رہی ہے۔ی بہت ہی تکلیف دہ بات ہے۔ میں نے کہا کہ اس کی اصل وجہ مذہب کی ٹھیکیداری اور پارسائی کا یکطرفہ دعویٰ کرنا اور دوسروں کو بغیر کسی ثبور کے خدا کا دشمن سمجھنا ہے حالانکہ اس میں زیادہ تر ذاتیات اور نفسانی سازشوں کو عم دخل ہوتاہے۔ پروفیسر صاحب نے بتایا کہ آپ کے ملک کے مالدار لوگوں کو بھارت کے گوپال یونیورسٹی بنانے والوں سے سبق لینا چاہئے جو اپنی دولت کو بھارت میں ایک جدید یونیورسٹی بنانے میں صرف کر رہے ہیں۔ میں نے دل میں کہا کہ ہمارے مالدار لوگ اپنی دولت اپنے بچوں کے لیے جائیدادیں بنانے پر کیوں نہ صرف کریں جن سے وہ عیاشیاں کرتے پھریں کہ کالج اور یونیورسٹیاں بنائیں۔ پلازے اور کارخانے کون بنائے گا اگر مالدار لوگ یونیورسٹیاں بنانے میں لگ گئے؟ قارئین کرام، ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ صرف ان کالجوں کی عمارات قدیم مذہبی عیسائی ادارے تھے بلکہ یہاں پڑھانے والے بھی شدید مذہبی اخلاقیات کے پابند عیسائی راہب ہوا کرتے تھے یہاں تک کہ انیسویں صدی کے وسط تک ان اساتذہ کو شادی کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ علم کا شعبہ کس قدر عظیم قربانی چاہتا ہے اور ان لوگوں کی ترقی میں ہزاروں نہیں لاکھوں ایسے پاکیزہ نفوس نے صدیوں تک محنت کی ہے۔ ان کی سیاسی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا مگر ان کی علمی سلطنت پر اب بھی سورج غروب نہیں ہوتا ۔ تمام عمارت پرانے قلعوں جیسی ہیں مگر ان میں جدید تعلیم کا دور دورہ ہے۔ پاکستان کے صرف اعلیٰ اشرافیہ کے بچے شاذونادر ہی یہاں پڑھتے رہتے ہیں یا پڑھ سکتے ہیں اس لیے کہ یہ کافی مہنگا بھی ہے۔ مجھے یہ افسوس تو ہے کہ میں نے یہاں پڑھا نہیں مگر ساتھ ہی خوشی بھی ہے کہ میں نے یہاں کے اساتذہ کے ساتھ تادیر باتیں کیں اور مجھے ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا اور چائے پانی کا موقع ضرور ملا۔ کھانے کی میز پر ایک پروفیسر نے ڈاکٹر اکبر ایس احمد کے بارے میں پوچھا۔ پروفیسر صاحب مجھے آکسفورڈ یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف کریمنالو جی لے گئے جسے دیکھنے کی عرصے سے میری خواہش تھی۔ پروفیسر راجر ہوڈ یہاں بھی اعزازی پروفیسر ہیں۔ ادارے کے سربراہ پروفیسر آیان لوڈر سے کافی دیر تک گفتگو رہی اور انہوں نے پاکستان میں جرائم، جرائم کی روک تھام پالیسی، پولیس اور علم الجرائم کے بارے میں پوچھا۔ میں نے ان کو اپنے رسالے "پاکستان جرنل آف کریمنالوجی"کے شمارے بطور تحفہ دیے اور کہا کہ میں کوئی پی ایچ ڈی تو نہیں ہوں مگر یہی تھوڑا سا کام اپنے ملک میں کر رہا ہوں ۔ حیرت سے دیکھنے لگے کہ تم سرکاری ملازمت کے ساتھ اتنا کام کیسے کرتے ہو؟ میری عزت افزائی اور حوصلہ افزائی کے لیے انہوں نے جو الفاظ کہے وہ میرے لیے ایک یونیورسٹی سند کے برابر ہیں۔ایک مقام پر پروفیسر موصوف نے بتایا کہ اس جگہ یونیورسٹی کی اعزازی ڈگریاں دینے کی تقریب منعقد ہوتی ہے ۔ کہا یونیورسٹی اب اعزازی سند دینے میں بہت محتاط ہے اس لیے کہ پاکستان کے وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو اور برطانیہ کی پہلی خاتون وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کو اعزازی سند دینے کے بارے میں شدید مخالفت ہوئی تھی اس لیے کہ اکثر لوگ ان کے ذاتی کردار اور سیاسی مخالفین کو دبانے پر ان کے مخالف تھے۔لہٰذا اب یہ مسئلہ بڑی حساس نوعیت کا بن گیا ہے۔پروفیسر موصوف نے اکثر جگہوں پر یہ بتایا کہ یہ نسبتاََ نئی عمارت ہے جس کا مقصد ان کے الفاظ میں یہ ہوتاتھاکہ یہ سولہویں صدی عیسوی میں بنی ہے۔ دراصل آکسفورڈ کے سب سے پرانے کالج مرٹن کی عمارت دکھاتے ہوئے کہا کہ میری تحقیق اس کی قدامت کے بارے میں ہے مگر دو اور عمارتیں بھی اس قسم کا دعویٰ کرتی ہیں۔ آکسفورڈ کے بازاروں میں بھی گھومتے پھرتے وہ بتاتے کہ یہاں کس زمانے میں یوں تھا اور یوں ہوتا تھا۔ ایک جگہ جہاں عام داخلہ ممنوع گھا پروفیسر صاحب اپنا کارڈ دکھاتے ہوئے مجھے لے گئے کہ شہر کے ارد گرد یہ حفاظتی فصیل ہوا کرتی تھی جو اب بھی کچھ کچھ موجود ہے ۔ سنٹرل لائبریری اور عجائب گھر بھی دکھایا مگر وقت کی کمی کی وجہ سے زیادہ نہ دیکھ سکا۔ ایک پورے دن کی روداد اب میں کیالکھوں مگر ایک عمارت جس میں اب ایک خوبصورت کالج اور لائبریری ہے کسی زمانے میں جیل تھی۔ بتایا کہ میری بیٹی نے میری نواسی سے کہا کہ کیا وہ اس خوبصورت ہوٹل میں رہنا پسند کریں گی،کہا ، ہرگز نہیں، میں کسی ایسی جگہ ہرگزنہیں رہوں گی جہاں کے کمروں میں ایک سو پچاس سال تک ظلم وبربریت کی نحوست بند ہو۔ دراصل یہ اس زمانے کی جیل کی حالت پر ایک ایسا تبصرہ ہے جو آج ہماری جیلوں پر سو فیصد صادق آتا ہے۔ غالب جنت اس لیے نہیں لینا چاہتا کہ اس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں گی ۔ اس سے پہلے کالم میں میں نے مغرب کے اساتذہ کی بات کی تھی۔ پروفیسر راجر ہوڈ کو آپ انہی عظیم اساتذہ میں شمار کر سکتے ہیں جو پچھتر سال کی عمر میں بھی میرے ساتھ آکسفورڈ کے گلی کوچوں اور کالجوں میں اتنے گھومے پھرے کہ مجھے اپنی نوجوانی پر شرم محسوس ہورہی تھی۔ میں جب ان کو ان کی تھکاوٹ کے بارے میں کہتا تو فوراََ کہتے اس کی پرواہ نہ کریں، آپ کے پاس ایک ہی دن ہے، میں آخری وقت تک آپ کے ساتھ رہوں گا تاکہ آپ زیادہ سے زیادہ کالجز اور تاریخی مقامات دیکھیں۔ بتائیں بھلا ہیں ایسے اساتذہ ہمارے پاس؟ قوموں کی ترقی سیاستدانوں کے نعروں سے نہیں اس قسم کے جلیل القدر اور حسن اخلاق کے نمونے اساتذہ سے ہوتی ہے۔ انسٹیٹیوٹ آف کریمنالوجی کے سربراہ پروفیسر یٓیان لوڈر نسبتاََ نوجوان نظر آئے، واپسی پر میں نے پروفیسر راجر ہوڈ سے پوچھا کہ ان کی عمرکم لگتی ہے کی انہوں نے کوئی کتابیں بھی لکھی ہیں؟ کہا ہاں ہاں بہت کچھ لکھا ہے اور یاد رکھیں آپ اس ملک اور بالخصوص اس یونیورسٹی میں پروفیسر بن ہی نہیں سکتے جب تک آپ کی تصانیف اعلیٰ محققین سے داد نہ وصول کریں۔ یہ آپ نے کیسے سوچا کہ یہاں کا پروفیسر ہوگا اور اس کی تحقیقی تصانیف نہیں ہوں گی؟ناممکن! مجھے اپنی معلومات پر شرمندگی ہوئی اور سوچا کہ آئیں اور اپنے ملک کے پروفیسر کو دیکھیں کہ ان کے پلے ایک اعلیٰ انفرادی تحقیقی مقالہ بلکہ اخبار کے کالم تک نہیں ہیں کجا کہ تحقیقی تصانیف۔ بلکہ ایک وائس چانسلر کا پی ایچ ڈی مقام بھی نقل سے بھرا ہوا مشکوک بتایا جاتا ہے۔ہمارے اساتذہ کو سیاست بازی سے فرصت نہیں کتب بازی کیا کریں گے ۔ کاش ہمارے یہ بڑے بڑے دارالعلوم اور کالجز بھی اکسفورڈ جیسے کالجوں میں تبدیل ہو جائیں۔ رہے نام اللہ کا۔

صحافیوں کی دانشوری--فصیح الدین ، پی ایس پی

صحافیوں کی دانشوری
صحافتی برادری جس سے ایک گونہ تعلق میں بھی رکھتا ہوں اس وقت انتہائی اہم ذمہ داریوں اور چیلنجوں سے نبرد آزما ہے۔ جدید دنیا میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون گردانا جاتا ہے اس لیے کہ صحافت ہی کے ذریعہ عوامی رائے عامہ بننے اور بگڑنے کے عمل سے گزرتی ہے ۔ بادشاہتوں کے بہت حد تک خاتمے اور جمہوری ادوار میں صنعتی دور نے میڈیا کو آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ مسلمانوں کے پاس چونکہ انڈسٹری میں زیادہ حصہ نہیں ہے اس لیے میڈیا پر بھ ان کا کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے۔ پھر کھیلوں اور مشروبات کی صنعتوں نے میڈیا میں ایک اور طرح کا انقلاب برپا کر دیا ہے۔ سیاست میں دلچسپی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی طاقتوں کی طرف سے آنے والے بیانات پر سیاسی گفتگو کی گرم بازاری ہمارے ایشیائی ذہن کی آسودگی کے لیے کافی سامان مہیا کرتی ہے۔صحافت کو ایک صنعت اور ایک تجارت کا درجہ دینے میں بہت سے صحافیوں نے دن رات محنت کرکے اپنے مستقبل کو دن دگنی رات چگنی ترقی کی راہ پر گامزن بھی کردیاہے۔لیکن یہ سب باتیں اپنے ملک اور اپنے گھر کے دالان میں ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ گھر میں تو بقول جون ایلیا روز کوئی چیز ٹوٹ جاتی ہے اور جب کوئی جون ایلیا کو نہ ٹوکے تہ گلہ کرتا ہے کہ کیا خاندان میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی روک ٹوک والا ہی نہ رہے۔ یہ بیداری کی آواز لگانے والے چوکیدار معاشرے کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتے ہیں اور یہی کام صحافی بہن بھائی کر رہے ہیں۔ تاہم قارئین کرام، اس کے برعکس پاکستان کے کچھ صحافی خواتین وحضرات ایسے بھی ہیں جو بیرون ممالک کی چکا چوند زندگی ، بڑی بڑی عمارت اور برْی آلات کی حیرت انگیز سرعت کے سامنے بہت زیادہ مرعوب ہو جاتے ہیں اور گھر کی مرغی دال برابر کی طرح بیرون ممالک کے اخبارات ورسائل اور دانشوری کے اداروں میں پاکستان جیسے مظلوم ملک کو جو جی میں آئے برا بھلا کہہ دیتے ہیں۔18جون کو امریکہ سے واپسی پر مجھے برطانیہ میں لندن، مانچسٹر،آکسفورڈ اور ھڈرزفیلڈ کے بعض تعلیمی اداروں میں جانا اور کہیں کہیں علمی شخصیات سے ملنا تھا۔ اس دوران ایک نسبتاََ نیا شمارہ "Prospect"بمعنی "تناظر" (جون 2011) ایک سٹال پر دیکھنے کو ملا۔ ایک پاکستانی دانشور صحافی خاتون مونی محسن نے ایک کالم صفحہ نمبر 16پر "میرا پاکستان"کے نام سے لکھا ہے۔ یہ بات بجا ہے کہ ہم میں سے کوئی کسی دوسرے کو حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ دینے کا مجاز نہیں اور پاکستان پر جتنا حق کسی بھی ایک شہری کا ہے اتنا ہی مونی محسن صاحبہ کا بھی ہے۔اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس ملک میں ہم میں سیھ ہر دوسرے تیسرے شخص کے ساتھ کوئی نہ کوئی زیادتی ہوئی یا ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ تعلیم کی کمی، گربت ، حکمرانوں کی بد اطواری، جاگیرداری، قانون کا عدم احترام، ٹیکس چوری، بجلی چوری، گیس چوری، ملاوٹ، امراض، وبائیں، سیلاب، پیسے کے بل بوطے پر الیکشن ، آئینی بحران،غیر ضروری ملٹری آپریشن وغیرہ جیسی قباحتوں کی موجودگی میں زیادتی کا ہونا کیا ہم لوگوں کا زندہ رہنا ہی ایک معجزہ ہے۔قباحتیں مغرب کے تاریک دور اور ان کے اندر جنہوریت کا کلچر توانا درخت بننے سے قبل ہم سے بھی زیادہ تھیں اور جن کے خلاف لڑنے میں وہاں کی عوام اور بیدار مغز تعلیم یافتہ طبقہ نے صدیوں تک جدوجہد کی ہے۔ بہرحال مونی صاحبہ نے پاکستان سے سخت گلے کیے ہیں اور عائشہ جلال، حسین حقانی، زاہد حسین، شجاع نواز، ملیحہ لودھی، اور ایسے بے شمار دانشوروں کی طرح پاکستان کی تاریخ کو بری طرح کوسا ہے کہ اس ملک میں خفیہ ہاتھ ہی حکومت چلاتے ہیں اور جب تک جرنیلوں اور مذہبی لوگوں کا سیاست میں عمل دخل رہے گا تب تک یہ ملک انتہائی بد قسمت ہے۔ مونی صاحبہ نے زیادہ زور جرنیلوں کے خلاف نہیں بلکہ آرمی کے خلاف لگایا ہے گویا چند جرنیلوں کی طالع آزمائی کے نتیجہ میں پوری آرمی کو سخت الفاظ میں یاد کیا ہے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ ڈکٹیٹرشپ اچھی ہے یا خفیہ ہاتھوں کو درپردہ حکومت چلانے سے باز نہیں آنا چاہئے مگر یہ یہ ضرور کہتا ہوں کہ بجلی چوری، ٹیکس چوری، پولیس تشدد، جاگیردارانہ ذہنیت، ملاوٹ، فراڈ، دھوکہ دہی، فنڈز میخردبرد، اقرباپروری اور رشوت ستانی جتنی سول حکومتوں میں ہوتی ہے اتنی فوجی حکومتوں میں نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ ہر شخص اپنے ارد گرد نظر ڈال کر ہی دیکھ سکتا ہے ۔ یہ الگ بات کہ ہماری عوام کو ان قباحتوں کے ہوتے ہوئے بھی فکری اور جمہوری آزادیاں پسند ہیں اور جو ایک اچھی بات ہے۔ البتہ موازنہ کو طور پر پاکستان میں سماجی برائیاں فوجی سے زیادہ سول حکومتوں میں نظر آتی ہیں۔ ایک پاکستانی صحافی نے امریکہ کے اخبار میں ایک اس طرح کا مضمون لکھا ہے کہ پاکستان کی آئی ایس آئی کا ہاتھ سب دھندوں کے پیچھے نظر آسکتا ہے اور تان اس پر ٹوٹی ہے کہ موصوف نے صحافت کی خاطر بڑی قربانیاں دی ہیں۔امریکہ میں کئی کیا درجنوں تھنک ٹینک کے ادارے قائم ہیں ۔ ان میں سے بعض بعض میں پاکستان کے انگریزی لکھنے بولنے والے صحافی خواتین وحضرات کو حالات حاضرہ پر بولنے کے لیے بلایا جاتا ہے۔ ایک جگہ سے دعوت نامہ ملا مگر میں مصروفیت کی بناء پر امریکہ سے چل پڑا تھا۔ دیکھا تو کہا گیا تھا کہ فلاں صحافی پاکستان میں مذہبی جنونیت پر خطاب فرمائیں گے اور ایک جگہ تو سابق آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کے بھائی شجاع نواز کے ادارے میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی بیٹی کا بھی خطاب تھا۔ یہ تو بجا ہے کہ ہر ایک کو اپنا اپنا خیال ظاہر کرنے اور اپنی اپنی تحقیق پیش کرنے میں آزادی ہے مگر میں جب ان صحافی دانشوروں کو بیرون ممالک اپنے ملک کے کپڑے اتارتے ہوئے دیکھتا ہوں تو حیرت میں گم ہو جاتا ہوں کہ یہ آکر کن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں؟ ان کے پاس ضیاء الحق کے لیے بھی دلائل تھے اور مشرف کے لئے بھی۔ پاکستان میں ٹیکس چوری اور بجلی چوری کا مذہبی جنونیت سے کیا تعلق؟ پاکستان میں بیروزگاری اورفنڈز میں خرد برد کا دینی مدارس سے کیا کام؟ پاکستان میں قرضوں کی معافی ، عدم وصولی ، زراعت کی ناکامی اور ڈیموں کے نہ بننے کا طالبان سے کیا سروکار؟ مذہبی جنونیت ایک مسئلہ ہے اور بہت بڑا مسئلہ ہے مگر پاکستان کے دیگر مسائل کے اصل ذمہ دار جاگیردار، جرنیل، جج، بیوروکریسی اور سیاستدان ہیں اور اس میں سیاسی مذہبی رہنماؤں کا بھی بہت بڑا عمل دخل ہے۔ ہمارے یہ دانشور مغرب میں سیاسی اسلام، عسکری اسلام، مسلح اسلام جیسی اصطلاحات زور وشور سے استعمال کرتے ہیں اور پاکستان کے قبائلی علاقوں پر مانے ہوئے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں حالانکہ نہ یہ پوری زندگی میں چند دن تک بھی مذہبی تعلیم حاصل کر چکے ہوتے ہیں، نہ قبائلی نظام میں وقت گزارا ہوتا ہے حتٰی کہ کسی قبائلی علاقے کا دورہ بھی نہیں کیا ہوتا، نہ وہاں کی ثقافت ، زبان، اور تاریخ کی پیچیدگیوں سے واقف ہوتے ہیں نہ کسی مدرسے میں چند دن گزارے ہوتے ہیں نہ دینی مدارس کی تعلیم کی تاریخ سے واقف ہوتے ہیں۔ یہ دانشور دراصل اخباری خبروں پر چلتے ہیں اور جن کی"تحقیق"کا منبع اخباری خبریں ہوتی ہیں جو کہ کسی طور بھی قابل قبول نہیں اور اصل تحقیقی ماخذ میں شمار نہیں ہوتیں۔ یہ لوگ دراصل مغرب کو غلط راہ پر ڈال رہے ہیں۔ مغرب کی دانشوری کا تقاضا یہ ہے کہ اس قسم کے دور بینی محققین سے دور رہیں ۔ ان کا علم انتہائی سطحی ہوتاہے۔ ان کے کچھ مالی فوائد ہوتے ہیں، یہ ڈرائینگ روم صحافت اور بعض اوقات ایجنسیوں کی خبروں پر چلتے ہیں۔ صحافتی خبروں کی بنیاد پر ملکی پالیسیاں نہیں بنتیں۔ کاش یہ صحافی دانشور بھی مغرب میں اثر رسوخ کے لیے اپنے ملک اور اداروں کو کوسنا بند کردیں ۔ ہماری سب عزت اس ملک کی وجہ سے ہے ۔ یہ ملک خدانخواستہ نہ رہا تو مغرب میں ان کی دانشوری کی دکان پھر نہیں چلے گی۔ کام نکالنے کے بعد سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ امریکہ تو پھر اس میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہ ذہن میں رہے۔ رہے نام اللہ کا۔ 

کیا ہم دہشت گردی سے لڑ سکتے ہیں؟ پاکستان کی استعداد و صلاحیت--فصیح الدین ، پی ایس پی، کے ساتھ ایک انٹر ویو

کیا ہم دہشت گردی سے لڑ سکتے ہیں؟ پاکستان کی استعداد و صلاحیت۔۔۔ایک انٹرویو

جب سے عالمی برادری کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف (طویل) جنگ میں شامل ہوا ہے، دس سالہ تجربے کے باوجود قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی میں بہتری نظر نہیں آرہی، خاص طور پر پولیس نہ تو شہری علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات کو روکنے اور نہ ہی تفتیش میں بہتری لا سکی ہے۔ دہشت گردوں کے حملوں میں بھی خاتمہ یا تخفیف ہوتی نظر نہیں آتی، مثلاََ بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، کار بم دھماکے، یا خودکش دھماکے۔ عالمی برادری پاکستان کے عہد کو اکثر مشکوک نظر سے دیکھتی ہے جبکہ پاکستانی اپنی استعدادکار کی کمی کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں اور یہاں تک کہ عالمی فریقوں (stakeholders) کے کردار، تعاون اور نیّت پر بھی شبہ کرتے ہیں۔ بحث مباحثہ، تباد لہء خیالات اور باہمی الزام تراشی کی وقعت عوام کے نزدیک بہت کم ہے جو اپنے علاقے میں کسی بھی دہشت گردی کے واقعے کے تشویشناک اثرات کو محسوس کرے ہیں۔ خواہ اِن واقعات کے پس پردہ وجوہات عالمی ہوں یا اندرونی۔ طلباء کے ایک گروہ نے جناب فصیح الدین صاحب کا انٹرویو لیا جو کہ ایک پولیس افسر ہیں اور پاکستان سوسائیٹی آف کریمنالوجی کے صدر بھی ہیں، یہ جاننے کے لیے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے، روز بروز بڑھتے ہوے دہشت گردوں کے حملوں کا مقابلہ کرنے اور انہیں روکنے میں کیوں ناکام ہیں ورکیوں عوامی عدم تحفظ بھی عروج پر ہے۔ ذیل میں اس انٹرویو سے کچھ اقتباس پیش کیا گیا ہے جو کہ اسے سے متعلقہ موضوعات پر تحقیق کرنے والے نوجوان طلباء نے ریکارڈ کیا ہے۔

سوال 1:۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں آپ کی ذاتی رائے کیا ہے؟
جواب:۔ اگرچہ میں اس محاورے سے اتفاق نہیں کرتا تاہم امریکہ کی پالیسیوں کی بدولت اسے بہت شہرت ملی ہے ۔ سو ہمارے پاس اسے قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ دہشت گردی کے ساتھ ایک منظم جرم(Organized Crime) کی طرح نمٹنا چاہیئے جو کہ بہت سارے تشویشناک جرائم کے ساتھ منسلک ہے۔ امریکی پالیسیوں میں لفظ ’جنگ‘ بہت مشہور ہے مثلاََ اُنکی ’منشیات کے خلاف جنگ‘ اور ’غربت کے خلاف جنگ‘ وغیرہ۔ آپ جانتے ہیں کہ پاکستانیوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے بلکہ اِس خطے میں موجود وسائل کے حصول کیلیئے امریکی جنگے ہے۔ بہت سے پاکستانی کالم نگار اور ٹی وی پروگراموں کے میزبان (Ancherpersons) خصوصاََ اردو میڈیا اور مذہبی گروہوں سے تعلق رکھنے والوں کی رائے اِس بارے میں ایک ہی ہے۔ اس لفظ کے استعمال کی وجہ سے شہری علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام بہت مشکل ہو گیا ہے۔ انہی متضاد تصورات کی بدولت افغانستان یا امریکہ کی بجائے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے خدوخال بہت ہی واضح اور قابلِ فہم نظر آتے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ متحدہ مجلس عمل (مذہبی جماعتوں کا اتحاد) کے دور (2002-2008) میں بھی خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں اسی شدّت اور انداز کے دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے تھے جو کہ ہم آجغیر مذہبی جماعتوں کے دورِحکومت (2008-2011) میں دیکھ رہے ہیں۔ عوام کے نزدیک دونوں ادوار میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوئی کامیابیاں نہیں ہویءں۔ آپ دیکھئے کہ فوجی کاروائیاں بھی اُس رفتار اور جذبے سے جاری ہیں۔ خارجہ پالیسی، جعرافیائی، نظریاتی، انٹیلی جنس، سیاسی، سماجی، اور عسکری تناظر میں اب ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا مطلب واضح کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ میں عام طور پر اپنے آپ کو آخری نکتے تک ہی محدود رکھتا ہوں، چاہے جیسی بھی مجبوریاں، ہدایات اور اختلافات کیوں نہ ہوں۔

سوال 2:۔ پاکستان پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ذمہ داری قبول کرنے کا الزام ہے۔ تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ مغربی میڈیا کا معقول تجزیہ ہے؟
جواب:۔ میں بہت واضح نظریات رکھتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم دہشت گردی کے خلاف نہیں لڑ سکتے چاہے ملک میں کسی کی بھی حکومت ہو۔ خصوصاََ پولیس تو اِس بارے میں با لکل بھی کچھ نہیں کر سکتی۔ جرائم کے خلاف جنگ کے بارے میں ہماری استعداد یا ذمہ داری کے مسئلے کی کوئی اہمیت نہیں۔ مغربی میڈیا تو شک پرست ہے یا ہمارے بارے میں بالکل ہی بے خبر ہے۔ وہ دہشت گردی جیسے تشویشناک اور منظّم جرم کے خلاف ہماری جنگ نہ لڑ سکنے کی کوئی وجہ تلاش کرنا چاہتے ہیں جس کے لئے ہمیں ہی عالمی طور پر پابندقرار دیا جاتا ہے۔ جب وہ اس کے پس پردہ حقیقی وجوہات کو نہیں دیکھ پاتے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس بارے میں اپنے عہد کی پابندی نہیں کر رہے۔ یہ اس طرح ہے جیسے پولیس میں بد عنوانی یا رشوت ستانی جیسی فرضی باتیں اور عام تصّورات۔ ۔ عام طور پر یہ بات فرض کر لی گئی ہے کہ پولیس بد ترین حد تک بد عنوانی اور رشوت ستانی میں ملوّث ہے، لہٰذہ وہ جرائم کے خلاف لڑ نہیں سکتی یا لڑنا نہیں چاہتی۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر انتہائی ایماندار، مذہبی اور روحانی لوگوں کو پولیس کے سربراہانوں کی نشستوں پر بٹھا دیں تو کیا ہم دھماکو اور ڈاکوؤ کو کنٹرول کر سکیں گے؟؟ لہٰذہ جس طرز پہ جنگ لڑنے کی ہم سے توقع کی جا رہی ہے ہم دہشت گردی کے خلاف نہیں لڑ سکتے، اگرچہ ہم سو فیصد بھی مخلص ہوں۔ ہمیں وعدوں سے پہلے ذہنوں کی ضرورت ہے۔ مغربی توقعات اور ’’امریکی ڈو مور‘‘ کیلیئے واضح اشاروں کی ضرورت ہے جو کہ عوام کے علم میں نہیں۔

سوال3:۔ اِ س کا مطلب ہے کہ آپ ہمارے پالیسی سازوں کی استعداد کی توجیہہ سے اتفاق کرے ہیں؟
جواب:۔ میں اُنکی بے گناہی/قربانی کا بکرا بننے والی توجیہہ سے اتفاق نہیں کرتا۔ فرض کریں کہ پولیس کے سربراہان اور پالیسی ساز اپنی استعداد میں کمی کی مجبوریوں کے بارے میں اپنے مشاہدے میں حق بجانب ہیں ، تو یہ بتائیں کہ پچھلے دس سالوں میں انھوں نے اپنی استعداد بڑھانے کیلیئے کیا کیا؟ یا پھر وہ اپنی فورسز کی تعلیم و تربیّت، انتخاب، صف بندی اور مقامی انٹیلی جنس اکٹھی کرنے میں کیا تبدیلیاں لائے؟ آپ 2002 کے بعد ہمارے ڈیپارٹمنٹس میں کون سی اداراتی تبدلیوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں؟ اگر وہ پولیس میں سیاست کے عمل دخل کی شکایت کرتے ہیں تو اُن سے پوچھیئے کہ کس کی طرف سے اُن کا تقرر ہوا ہے؟ اور ان اداروں میں سیاسی مداخلت کو کم کرنے کیلیئے انھوں نے کیا کردار ادا کیا ہے؟ یہ محض ایک لنگڑہ لوڑہ بہانہ ہے، ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں زیادہ سے زیادہ مالِ غنیمت ہضم کرے ، جیسا کہ انھوں نے روس اور افغانستان کی جنگ میں کیا تھا۔ لہٰذہ آپ کو اسی طرح کے دلائل دونوں طرف سے سننے کو ملیں گے۔

سوال 4:۔ پھر آپ کے خیال میں کیا کِیا جانا چاہیے تھا؟
جواب:۔ آپ کو پتہ ہے کہ امریکہ 9/11 کو روک نہ سکا اور برطانیہ 7/7 کی بمباری کو روکنے میں ناکام رہا، لیکن اس کے بعد کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا۔ اُن کے پاس ذہن ہیں۔ اِن واقعات کے بعد کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا۔ 9/11 کمیشن کی رپورٹ انکی اپنی کمزوریوں اور تحفظ فراہم کرنے میں غفلت کے بارے میں ایک مخلص اور سنجیدہ تنقید ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو مشکل سے ہی کچھ پتہ ہوگا کہ امریکہ اور برطانیہ میں کونسی پالیسیاں بنیں اور کونسے عملی اقدامات کیے گئے۔ حتٰی کہ ترکی، سپین اور انڈونیشیا نے اپنی سکیورٹی کے شعبے میں جامع اور مو ثر اصلاحات نافذ کیں۔ انھوں نے نئے ادارے قائم کیے، نئے قوانین بنائے، نئی ٹاسک فورسز تشکیل دیں، دہشت گردی سے نمٹنے کیلیئے نئی پالیسیاں تشکیل دیں اور انھیں اپنی قوم کی حمایت حاصل ہے۔ ان ممالک کے علاوہ کینیڈا اور آسٹریلیا کو دیکھیں جہاں کسی خاص نوعیت کا دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ پیش نہیں آیا، لیکن پھر بھی انھوں نے اس سے نمٹنے کیلیئے بہت کچھ کیا۔ ان کے پاس دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے شائع شدہ تدابیر موجود ہیں اور آپ ان کے قومی لائحہ عمل میں مکمل تیاری کے پروگرام دیکھ سکتے ہیں۔ اس موضوع پر سینکڑوں کتابیں اور تحقیقی مقالے آپ کو دیکھنے کو ملیں گے لیکن پاکستان میں یہ آپ کو مشکل ہی سے ملیں گے۔ اسلام آباد میں ہماری دکانیں یا ائیر پورٹ پر بکسٹالز دہشت گردی، بنیاد پرستی اور طالبان وغیرہ کے بارے میں کتابوں سے بھرے پڑے ہیں، لیکن ان میں سے اکثر صحافیوں اور ریٹائیرڈ افسران نے لکھی ہیں اور میری رائے میں قانون نافذ کرنے والے افسران کیلیئے یہ کتابیں کچھ زیادہ کام کی نہیں۔ ان میں سے اکثر سیاسی محرکات کی پیداوار ہیں یا پھر یہ پروپیگنڈے کی کتابیں ہوتی ہیں۔ بہر حال ہمارے پالیسی سازوں نے مغربی ترقیافتہ ممالک کے بہترین عملی اقدامات سے کچھ بھی نہ سیکھا اور نہ ہی اُن سے کچھ سیکھا جنہوں نے اپنے دہشت گردی کے مسائل کو موء ثر طریقے سے کم کیا یا خطرات کا تعین کرنے کے کسی بھی پروگرام پہ کام کیا۔

سوال 5:۔ تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایسے اقدامات فاٹا (FATA) میں اٹھائے جا سکتے ہیں؟ اور کیا ہم وہاں عسکری کاروائیاں روک سکتے ہیں؟
جواب: ۔ نہیں نہیں!!! برائے مہربانی آپ فاٹا کی صورتحال کا موازنہ شہری علاقوں میں دہشت گردی کے حملوں سے بالکل مت کیجیئے۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ فاٹا میں عسکری کاروائی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہاں تہذیبی اور تمدّنی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔یا اگرچہ آپ اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں یا آپ کے پاس خیبر پختونخواہ میں ایک اچھا گورنر موجود ہو تب بھی اس کیلیئے ایک نسل کے گزرنے جتنا وقت درکار ہے۔ میں فاٹا میں عسکری کاروائی پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔ ہمارے پاس اس بارے میں قابلِ تصدیق ریکارڈ یا عوامی رائے نہیں ہے۔ بہت سے میڈیا رپورٹس مجھے ’’کنٹرولڈ انفارمیشن‘‘ کے درجے کی لگتی ہیں۔ ایک دفعہ میں نے سوات اور باجوڑ میں کاروائیوں کے بارے میں اخباری رپورٹس سے ڈیٹا جمع کیا اور مجھے اُن میں بہت تضاد نظر آیا۔ تاہم اگر ہم ان ناخوشگوار واقعات کے رونما ہونے سے پہلے فاٹا میں تہذیبی اور تمدنی تبدیلی لے آتے تو آج ہم بہت سی زندگیوں کو بچا چکے ہوتے۔ ہمیں کسی سر سید احمد خان، علامہ اقبال، سید سلیمان ندوی یا لارڈ میکالے کی طرح کی شخصیت کی بطور گورنر کے ضرورت ہے جو اس زمین کی اولاد ہو اور جس کا اپنا ایک واضح مقصد اور ذمہ داری ہو۔ وہ ایک ماہر تعلیم ہو، ایک مصلح ہو جو موجودہ شورش اور دہشت گردی کو روکنے جیسی فضول بحث و مباحث میں نہ الجھے۔ وہ تاجر یا ریٹائرڈ فوجی جرنیل نہ ہو۔ ایسے ہمارے پاس بہت ہیں۔ اسے ماہرین کے ایک گروہ کی حمایت حاصل ہو جو قبائلی ذہنیت اور انسانی ذہن کی برائی کی طرف میلان سے بخوبی واقف ہو۔ اسکے لیے صبر اور حوصلے کی ضرورت ہے، کسی عارضی اقدام کی نہیں اور تقریباََ ایک عشرہ یا اس سے زیادہ لگ سکتا ہے جس میں ایسے مخلص لوگوں کا گروہ پیدا ہو جو اپنے قبائلی علاقوں میں تہذیبی اور تمدنی تبدیلی کیلیئے کام کریں۔ یہ انتہا پرستی کے خاتمے کی طرف ایک طویل مقصد ہے۔ میں اسکی تفصیلات میں جانا نہیں چاہتا لیکن آپ یہ ذہن میں رکھیں کہ چارسدہ، پشاور اور بنوں تقریباََ ایک صدی پہلے اپنی قبائلی علاقوں کی طرح ہی تھے۔ میرا مطلب ہے انتہا پسند گروہوں کی سرگرمیوں کے لحاظ سے۔ ۔ ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایڈورڈز کالج اور اسلامیہ کالج 20ویں صدی کے پہلے عشرے میں اپنے قیام کے بعد پشاور میں کتنی تبدیلیاں لائے۔ 1933ء میں جب علامہ اقبال نے سر راس مسعود اور سید سلیمان ندوی کے ساتھ افغانستان کا دورہ کیا تو انھوں نے دونوں ممالک کی سرحد (جو کہ اب ڈیورنڈ لائن ہے) پر ایک اعلیٰ درجے کی یونیورسٹی کے قیام کی تجویز پیش کی۔ اس بارے میں لوگوں کو کم ہی علم ہے۔ ہمارا میڈیا، مصنّفین اور سیاستدان FCR اور عسکری کاروائیوں کے بحث مباحثوں کی خبروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ نتائج کا حامل کام ہمیں کچھ زیادہ نہیں بھاتا۔ کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ ہمارے سابقہ گورنر جو کہ ایک تاجر/ کاروباری شخصیت تھے نے اپنے طویل دورِ حکومت میں کتنی مرتبہ فاٹا کا دورہ کیا؟ اس نے فاٹا میں کتنے ادارے قائم یا شروع کئے؟ فاٹا کے کتنے طلباع کو سرکاری وظیفے پر باہر بھیجا؟ کتنے ترقیاتی کام کئے؟ فاٹا میں بھوت سکولوں کے بارے میں کیا اقدامات کئے؟ فاٹا میں سِول مسلح دستوںْ/افواج/فورسز کی تربیت کیلیئے کیا اقدامات کئے؟ فاٹا میں سماجی جرائم اور سماجی مسائل کا کوئی ریکارڈ نہیں نہ ہی معلومات اکٹھی کی گیءں۔۔۔ کیوں؟ ۔۔۔اوّل یہ کہ آپ کے پاس کوئی پالیسی نہیں ہے اور دوم یہ کہ یہ تحقیق پر مبنی نہیں ہے۔ یہ ایک طویل بحث ہے۔ برائے مہربانی آپ یہ نہ کہیں کہ تحضظ کی صورتحال سازگار/موافق نہیں تھی۔ لوگ بحران/نازک دور میں زیادہ کام کرتے ہیں۔ اگرچہ میں عسکری کاروائیوں پر کچھ تبصرہ نہیں کرنا چاہتا تاہم سوات میں کاروائیوں نے کچ امن اور چین بحال کیا اگر ہم یہ سمجھتے ہوں کہ وہاں واقعی خطرہ تھا!!!؟ اگر سوات میں خطرے کو ہم معقول اور حقیقی سمجھیں تو عسکری کاروائیوں کی بدولت وہاں کچھ نہ کچھ امن اور چین بحال ہوا ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ معلومات، تحقیق اور احتساب کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہم سازشی نظریات میں ہی الجھ کر رہ گئے ہیں اور ایسی صورتحال میں صحیح تجزیہ بہت مشکل ہو گیا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ فاٹا دہشت گردی کے خلاف بالکل اسی طرز کی حکمت عملی کی ضرورت نہیں جو ہم ملک کے دیگر شہری/رہائشی اضلاع میں استعمال کرتے ہیں۔

سوال 6:۔ آئے روز ہم اخبارات میں قانون اور امنِ عامہ اور ملک میں دہشت گردی کے بارے میں اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں کے بارے میں پڑھتے ہیں، تو کیا یہ لاحاصل ہیں؟
جواب:۔ ہاں۔۔۔ اس بارے میں کوئی شک نہیں۔ عام طور پر آپ کو اس طرح کی ہر ملاقات کے بعد کچھ نئی پالیسیاں، ہدایات اور کچھ اقدامات کی تجاویز ملتی ہیں لیکن میں نے آج تک یہ نہیں دیکھا کہ ایسی اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں سے نیچے فیلڈ افسران کی طرف کچھ منتقل ہوا ہو کہ انہیں کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے۔ یہاں تک کہ اعلیٰ افسران کی طرف سے پرزینٹیشنز اکثر تصدیق شدہ یا قابلِ تصدیق نہیں ہوتیں، جو کہ زیادہ تر انکے ماتحتوں نے تیار کی ہوتی ہیں۔ ایک مرتبہ خیبر پختونخواہ کے ایک اعلیٰ افسر کی طرف سے وزیرِ اعلیٰ کو انتہائی ناقص اعداد و شمار غلط تخمینے کے ساتھ پیش کیے گئے لیکن کسی نے اس کا نوٹس نہی لیا۔ مجھے معلوم نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی رو سے اِن اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں کو کس قدر طاقت اور اختیارات حاصل ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق فیصلوں اور عملی کاروائیوں کے متعلق کسی مخصوص شخص یا وزارت کو کوئی خصوصی اختیار حاصل ہو۔ اور میں یہ بھی خیال نہیں کرتا عوام کو اِن اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں پر کچھ اعتماد ہوگا جس کی تصاویر ہم ہر اگلے روز اخبارات میں دیکھتے ہیں (دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد)۔ ہر مرتبہ دہشت گردی کے واقعے کے بعد ہسپتال میں پڑے ہوئے حملے کا شکار ہونے والوں کی صحت کے بارے میں دریافت کرتے ہوئے ا علیٰ سیاسی شخصیات کے فرسودہ قسم کے بیانات بہیت ہی اکتاہٹ کا باعث بنتے ہیں۔ ’’یہ ایک بزدلانہ اقدام ہے‘‘۔’’ دہشت گردوں کی ان کمینی حرکتوں سے ہم ذرّہ بھی خوفزدہ نہیں ہیں‘‘، ’’حکومت نے 24گھنٹوں کے اندر اندر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے‘‘، ’’معصوم لوگوں کو قتل کرنا اسلام نہیں ہے‘‘، ’’دہشت گردوں کی اس ملک میں کوئی جگہ نہیں‘‘، ایسی ہی بے ہودہ باتیں ہم روز سنتے ہیں۔ کسی کو نہیں معلوم دہشت گردی کے واقعے کی کتنی رپورٹس صوبائی اور وفاقی حکومت نے 34 گھنٹوں اور تین دن میں طلب کی ہیں اور یہ رپورٹس کہاں ہیں اور یہ تفتیش کہاں ہو رہی ہے اور کیس فائلیں کہاں کہاں ہیں اور کون کیس کی پیربوی کر رہا ہے۔ کسی کو دلچسپی نہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس ملک پر سے ہر ایک کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ اعلیٰ افسران اداراتی معاملات میں بالکل بھی دلچسپی نہیں لیتے۔ اُن کے اپنے خاندان کو سنبھالنے اور کاروبار کے دیگر مسائل ہیں۔ اور ہماری آزاد میڈیا اِن معاملات کو سنجیدہ اور پیشہ ورانہ طریقے سے نہیں اٹھاتی۔